اسم اعظم وظیفہ ، اللہ الصمد کو یوں پڑھو اور معجزہ دیکھو ، قرآن پاک کا سب سے طاقتور لفظ ہے یہ ،
یہ اللہ الصمد کا وظیفہ ہے اس کے لفظی معنی ہیں اللہ بہت بے نیاز ہے اور بے شک ایک واحد میرے اللہ کی ذات ہے جو ہر کسی سے بے نیا ز ہے اور جو اللہ کا یہ نام پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی ہر پریشانی سے بے نیاز کردیتا ہے یہ بہت آسان سا وظیفہ ہے اور ہر کوئی اس کو آسانی کے ساتھ بچی ہو چاہے بچہ ہو پڑھ سکتا ہے اور اس میں بہت زیادہ وقت بھی نہیں لگے گا ہم یہ وظیفہ کر کے اللہ سے اس کی مدد مانگیں گے اپنی رشتے کے لئے اور وہی ایک ذات ہے جو ہر قانون سے بالا تر ہے اور وہ جس کو جو چاہے جب چاہے عطا کر دے ایک بزرگ گزرے ہیں حضرت عبداللہ بن زید ؒ یہ بہت بڑے صوفی بزرگ ہوئے ہیں اور ان پر غلبہ رہا محبت کا جذب کا غلبہ رہا اور اسی غلبے کی وجہ سے حضرت نے نکاح بھی نہیں فرمایا اور آپ اکثر و بیشتر رویا بھی کرتے تھے کہ میں اس اہم سنت کی ادائیگی سے ناکام رہا ہوں جب بوڑھے ہوئے تو ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ وہ بیٹھے ہوئے تھے اور ایک کتاب پڑھ رہے تھے تو انہوں نے کتاب میں کیا پڑھا کہ میرے آقائے دو جہان ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کا انتقال اس دنیا میں بغیر نکاح کے ہوگیا اور وہ مسلمان مرا چاہے وہ مرد تھایا عورت تھی خواہ وہ بچہ تھا یا بچی تھی تو کیاہوگا اللہ جل شانہ جنت میں ان کا آپس میں نکاح کر دیں گے تو جب انہوں نے یہ حدیث مبارکہ پڑھی تو دل میں ان کے خیال آیا چلو یہاں پر تو نکاح نہیں کیا لیکن جنت میں تو ہوگا ہی تو پتہ نہیں اب جنت میں میری بیوی کون ہوگی بڑے لوگ بڑی باتیں ،لکھا ہے کتابوں میں کتابوں میں کہ پہلے روز انہوں نے دعا کی اپنے اللہ سے کہ تیرے محبوب ﷺ کا فرمان ہے کہ جنت میں نکاح لازم ہے تو یہاں تو نہیں ہوا تو جنت میں لازم ہے تو اے میرے اللہ مجھے دکھا کہ جنت میں میرا ساتھی کون ہوگا تو لکھا ہے کہ پہلی رات ان کی دعا شرف قبولیت نہیں ہوئی دوسری رات پھر انہوں نے دعا کی پھر قبول نہیں ہوئی جب انہوں نے تیسری رات دعا کی تو خواب میں انہوں نے کیا
دیکھا کہ ایک عورت ہے اور وہ کہہ رہی ہے کہ میں میمونہ ولید ہوں اور میں بصرہ میں رہتی ہوں یہ بیدار ہوئے حضرت تہجد کا وقت تھا انہوں نے تہجد کے نوافل اداکئے اور نماز فجر باجماعت پڑھی اور سواری لی اور بصرہ کی طرف روانہ ہوگئے بصرہ والوں نے حضرت کا بہت اچھا استقبال کیا وہ سبھی جانتے تھے اور انہوں نے بٹھا کر پوچھا حضرت آپ اچانک کیسے آگئے کوئی کام تھاتو حضرت نے فرمایا کہ مجھے یہ بتاؤ کہ تمہارے بصرہ میں کوئی میمونہ ولید رہتی ہے لوگ حیران ہو کر پوچھنے لگے حضرت آپ اتنے بڑے اللہ کے ولی ہیں اور آپ اتنی دور اس دیوانی سے ملنے آئے ہیں تو آپ نے فرمایا کیوں کیا اس کو کوئی نہیں مل سکتا تو وہ بصرے والے کہنے لگے حضور وہ تو ایک دیوانی ہے پاگل ہے لوگ اسے پتھروں سے مارتے ہیں تو آپ نے پوچھا کیوں مارتے ہیں تو وہ لوگ کہنے لگے حضرت اگر کوئی رو رہا ہو تو وہ اسے دیکھ کر مسکرانا شروع کردیتی ہے اگر کوئی مسکرا رہا ہو تو و ہ اس کو دیکھ کر رونا شروع کردیتی ہے تو اسی لئے لوگ اسے پتھر مارتے ہیں اور وہ اجرت پر پیسے لے کر ہماری بکریاں چراتی ہے اور آج بھی وہ ہماری بکریاں لے کر جنگل گئی ہے اور وہ عصر کے بعد آئے گی جب وہ آئی تو آپ اس سے مل لیجئے گا اور وہ ایسی دیوانی لڑکی ہے اور جو اسے مزدوری دیتے ہیں بکریوں کو چرانے کے لئے جتنی ضرورت ہو وہ رکھ لیتی ہے اور باقی سارے پیسے وہ اللہ کی راہ میں صدقہ کردیتی ہے وہ عصر کے بعد آئے گی تو آپ مل لیجئے گا تو آپ نے فرمایا بھائی بتاؤ عصر کس نے دیکھی ہے تم لوگ صرف یہ بتاؤ کہ وہ جنگل میں کس سائیڈ پر گئی ہے تووہ کہنے لگے حضرت جنگل بڑا خوفناک ہے حضرت نے پھر اصرار کیا تو لوگوں نے سمت بتائی تو آپ فرماتے ہیں میں وہاں
سے اس جنگل کی طرف چل پڑا اور جب میں اس جنگل کے اندر گیا تو دیکھا کہ بہت خوف ناک جنگل تھا شیر بھیڑیئے چیتے بھر مار ہے ان کی حشرات الارض کا بھی ڈھیر لگاہوا تھا اور کہنے لگے کہ میں بہت حیران ہوا یہ سب کچھ دیکھ کر یہ بڑی دلیر بی بی ہے جو اتنے خوفناک جنگل میں بکریاں چراتی ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ جو جگہ لوگوں نے بتائی تھی میں تلاش کرتے کرتے وہاں پر پہنچا تو آپ فرماتے ہین کہ جب میں وہاں پر پہنچا تو دو بہت حیران کردینے والے منظر تھے پہلا کیا ؟ آئی تو میمونہ ولید بکریاں چرانے کے لئے لیکن وہ بکریاں نہیں چرا رہی تھی بلکہ کیا کررہی تھی وہ اس جنگل میں مصلیٰ بچھا کر نوافل پڑھ رہی تھی یہ بکریاں تو صرف بہانہ تھا میمونہ ولید کے لئے لوگوں سے چھپنے کا بصرہ والوں کو تو صرف یہی پتہ تھا کہ میمونہ بکریاں چرانے جنگل جاتی ہے لیکن میمونہ وہاں پر کیا کرتی تھی وہ یادِ الٰہی میں مصروف رہتی تھی فرمانے لگے میں بڑا حیران ہوا اور دوسری حیران کردینے والی بات یہ تھی کہ میمونہ تو نوافل پڑھ رہی تھی اور بکریاں کو ن چرارہا تھا تو آپ نے کیا دیکھا کہ شیر بکریاں چرارہے ہیں بکریاں چر رہی تھیں اور شیر ان کے ارد گرد پہرہ دے رہے تھے اور اگر کوئی بکری بھاگتی ہے گھیرا توڑ کر تو شیر اسے کھاتا نہیں
بلکہ واپس اسی گھیرے میں لے آتا آپ فرمانے لگے کہ میں حیران ہوا کہ یہ فطرت کس طرح بدل گئی کہ شیروں نے بکریاں کب سے چرانا شروع کردیں اور کیسے ان کی یاری ہوگئی آپ فرماتے ہین کہ میں حیران و پریشان وہاں پر کھڑا مجھے نہیں پتہ کہ کب حضرت میمونہ ولید ؒ نے نماز ختم کی اور مجھے پکار کر کہنے لگیں اے عبداللہ ملنے کا وعدہ تو ہمارا جنت کا تھا آپ تو یہاں پر آگئے ہیں تو آپ فرمانے لگے میں بہت حیران ہوا اس سے پہلے میری اور میمونہ کی کبھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور اس کو کس طرح پتہ چل گیا کہ میرا نام عبداللہ ہے تو کہنے لگے میں نے حضرت میمونہ سے پوچھا کہ میمونہ اس سے پہلے تو تمہاری اور میری کبھی ملاقات نہیں ہوئی تو تمہیں میرا نام کس طرح پتہ تو کیا جواب دیا آپ نے فرمایا اے عبداللہ جس اللہ نے رات کو میرے بارے میں آپ کو بتایا تو اسی اللہ نے آپ کے بارے میں مجھے بھی بتا دیا تھا تو آپ فرماتے ہیں میں نے پھر سوال کیا میمونہ یہ تو بتا کہ فطرت کس طرح بد ل گئی یہ شیرو بکری میں صلح کیسے ہوگئی اور شیروں نے بکریاں کب سے چرانا شروع کردیں تو جواب ملا جس دن سے میں نے اپنے اللہ سے صلح کی تو اس دن سے ان شیروں نے میری بکریوں سے صلح کر لی سبحان اللہ اس کا مطلب کیا تھا کہ جب سے میں نے اللہ کو پایا اللہ نے مجھ پر رحمت کی کرم کیا اپنا فضل کیا۔ تووظیفہ یہ ہے کہ روزانہ اللہ الصمد کو 7 بار کسی بھی نماز کے بعد اول و آخر درود پاک کے ساتھ پڑھئے انشاء اللہ اچھی جگہ رشتہ ہوگا۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین
Post a Comment